دنیا اس وقت ایک ایسی خاموش جنگ میں داخل ہو چکی ہے جس کے میدان میں گولہ بارود نہیں بلکہ صنعتی اور معاشی اجارہ داری اور ٹیکنالوجی پر گرفت ہتھیار بن چکی ہے۔

گزشتہ تین ماہ سے پروسیسر، میموری، SSD اور گرافکس کارڈز اور الیکٹرانک جپس دنیا بھر میں نایاب ہو چکی ہیں، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قلت کم از کم آئندہ چھ ماہ تک، بلکہ اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک عالمی طاقتیں حقیقت کا ادراک نہیں کر لیتیں۔ 

اس بحران کی جڑ دراصل ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی بنی، جس نے پوری دنیا میں معاشی بالادستی کے حصول کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بے چینی پھیلا دی۔ 

چین چونکہ ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا، لہٰذا اُس نے دفاعی حکمتِ عملی کے تحت اُن اشیاء کی برآمدات محدود کر دیں جن میں نایاب معدنیات (Rare Earth Minerals) استعمال ہوتی ہیں، اور یہی وہ معدنیات ہیں جن سے دنیا کی جدید ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔

وہ 17 نایاب معدنیات جن پر دنیا کی ٹیکنالوجی کھڑی ہے 

یہ معدنیات ہیں:

Scandium, Yttrium, Lanthanum, Cerium, Praseodymium, Neodymium, Promethium, Samarium, Europium, Gadolinium, Terbium, Dysprosium, Holmium, Erbium, Thulium, Ytterbium, Lutetium 

ان میں سے 12 عناصر کا 90 فیصد ذخیرہ صرف چین کے پاس ہے، اور انہی سے وہ تمام جدید آلات تیار کیے جاتے ہیں جن پر آج کی دنیا چل رہی ہے۔ 

ان 12 عناصر سے بننے والی اہم اشیاء 

1. Neodymium (Nd) – طاقتور مقناطیس، GPUs، ہارڈ ڈرائیوز، EV موٹرز، اسپیکرز 

2. Dysprosium (Dy) – ہائی ٹمپریچر مقناطیس، دفاعی اور برقی گاڑیوں میں استعمال 

3. Praseodymium (Pr) – فائبر آپٹکس، الائے، سرامکس 

4. Terbium (Tb) – LED اور ڈسپلے پینلز کے لیے فاسفور 

5. Europium (Eu) – ٹی وی، اسکرین، LCD میں رنگ دینے والا عنصر 

6. Yttrium (Y) – فائبر آپٹکس، سپر کنڈکٹر، سرامکس 

7. Cerium (Ce) – گلاس پالشنگ، کیمیکل کیٹالسٹ، کیمرہ لینس 

8. Lanthanum (La) – بیٹریاں، آپٹیکل گلاس، لینز 

9. Samarium (Sm) – ملٹری الیکٹرانکس، مائیکرو ویو ڈیوائسز 

10. Gadolinium (Gd) – MRI، میڈیکل امیجنگ، نیوکلیئر آلات 

11. Erbium (Er) – فائبر آپٹکس، لیزر، ٹیلی کمیونیکیشن 

12. Ytterbium (Yb) – فائبر لیزر، کوانٹم کمپیوٹنگ، طبی آلات 

یہی وہ عناصر ہیں جن کے بغیر پروسیسر، میموری، SSD، GPU، سیمی کنڈکٹرز، فائبر آپٹکس، ہتھیار، راڈار، MRI، موبائل فون، سمارٹ کاریں بنانے کا تصور کچھ بھی وجود نہیں رکھتا۔ 


ٹرمپ نے یکم نومبر سے چین پر 100 فیصد ٹیرف (درآمدی ٹیکس) عائد کر دیا۔

جواب میں چین نے نایاب معدنیات کی برآمد بند کر دی۔ یہ وہ معدنیات ہیں جن پر جدید کمپیوٹر چِپس، دفاعی ہتھیار، اور ٹیکنالوجی انحصار کرتی ہے۔ 

چین نے نہ صرف امریکہ کو فروخت بند کی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی فراہمی محدود کر دی تاکہ امریکہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے انہیں حاصل نہ کر سکے۔ 

ٹرمپ برہم ہیں، مگر چین اب جوابی طاقت دکھا رہا ہے، اور ساتھ ہی عسکری مشقیں بھی کر رہا ہے۔

امریکہ چِپس بناتا ہے، لیکن ان کی تیاری انہی معدنیات پر منحصر ہے جو زیادہ تر چین سے آتی ہیں۔

جب امریکہ نے چین پر چِپس خریدنے کی پابندی لگائی، تو چین نے کہا

“ٹھیک ہے، ہم آپ کے چِپس نہیں خریدتے!” 

چین کی ترقی کی بنیاد دراصل انہی مغربی فیکٹریوں پر ہے جو پہلے وہیں منتقل ہوئیں،

اور آج وہ انہی کے بل بوتے پر خودکفیل اور طاقتور ہو چکا ہے۔ 

امریکہ کے پاس اگرچہ اپنی معدنی کانیں ہیں، مگر ان معدنیات کو صاف اور استعمال کے قابل بنانے کی ریفائننگ ٹیکنالوجی صرف چین کے پاس ہے۔

دنیا کی 90 فیصد Rare Earth Processing چین میں ہوتی ہے۔ 

ٹرمپ کی غلط فہمی یہ ہے کہ امریکہ آج بھی وہی پرانی سپر پاور ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب روایتی جنگوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب جنگیں معاشی طاقت اور ٹیکنالوجی کی برتری سے لڑی جاتی ہیں۔ 

یہ تنازع صرف معدنیات تک محدود نہیں۔ امریکہ کی سب سے بڑی زرعی برآمد سویا بین ہے، جس کا سب سے بڑا خریدار چین تھا۔ 

جب تجارتی جنگ چھیڑی گئی، چین نے خاموشی سے امریکی سویا بین خریدنا بند کر دی۔ 

نتیجہ؟ امریکی کسان مالی بحران میں ڈوب گئے، وہی کسان جو ٹرمپ کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ 

امریکہ نے ارجنٹینا کو 20 ارب ڈالر کی سویا بین امداد دی، اور اب چین وہی سویا بین ارجنٹینا سے خرید رہا ہے۔ یعنی امریکہ کے پیسے سے!

یوں امریکہ کی اپنی منڈی بند، اور اس کی زرعی طاقت زمین بوس ہو گئی۔ 

میں خود یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت و غضب کی دعائیں کرتا ہوں، مگر جب اپنے معاشی و فکری حال پر نظر ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں۔۔۔۔۔ 

کیا ہم نے بھی ٹرمپ جیسی جذباتیت میں اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماری؟ 

ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کیا،

مگر یہ بھول گئے کہ ہم تو 95 فیصد انہی کے خام مال، مشینری اور صنعت پر انحصار کرتے آئے ہیں۔

ہم نے کبھی اپنی صنعتی، تحقیقی، یا معاشی خود مختاری کو ترجیح ہی نہیں دی۔ 

ہمارے حکمرانوں نے عوام کی کمائی سے صرف ٹیکس وصول کرنا اور سود پر قرض لینا سیکھا۔ تاکہ اپنے خاندانوں کو مضبوط رکھ سکیں۔ 

جبکہ قوم کو بینظیر سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ، لیپ ٹاپ، اور سکوٹی اسکیموں کی بھیک میں الجھائے رکھا جائے۔ یہ سب وہی حکمتِ عملی ہے جس سے غلامی نسل در نسل منتقل ہو۔ یہ سب تو کٹھ پتلیاں ہیں انکی سرپرست اشرافیہ کی اس سوچ نے مزید سونے پر سہاگہ جیسا کام کیا کہ "صرف ہم ہی اس ملک کے مخلص ہیں، ہم ہی بہترین پالیسی ساز، ہیں، سیاست دان ناکام ہیں، عدالتی نظام ناکارہ ہے، تعلیم اور صحت بس اتنی دو کہ خدمت گار زندہ رہیں، کاروبار کے ہر شعبے میں اجارہ داری رکھو اور طاقت کے بل بوتے پر کسی کو ابھرنے مت دو، جب چاہا مد مخالف کو دشمن اور غداری کا سرٹیفکیٹ تھما کر نیست و نوبود کردو۔۔ 

دنیا کی اب ہونے والی جنگیں بتا چکی ہیں کہ اب وہی قومیں آزاد رہیں گی جو معاشی طور پر مستحکم اور ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہوں گی۔ 

ورنہ ذلت، انحصار، اور غلامی ان کا مقدر بن جائے گی۔ 

آج اگر کوئی قوم صرف دو وقت کی روٹی یا وقتی آسائش کو زندگی سمجھتی ہے، تو وہ خود ہی اپنی زنجیروں کو مضبوط کر رہی ہے۔ 

شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک،

تمام تر پابندیوں کے باوجود،

اپنی ٹیکنالوجی اور دفاعی خود کفالت کے باعث آج بھی ناقابلِ تسخیر ہیں۔

یہ اس حقیقت کا عملی ثبوت ہیں کہ

نہ آبادی کا ہجوم اور نہ بڑے رقبے، بلکہ علم، معیشت اور ٹیکنالوجی ہی بقا کی ضمانت ہیں۔ 

دنیا کی یہ خاموش جنگ ہمیں ایک بار پھر بتا رہی ہے کہ

طاقت صرف اس کے پاس ہے جو اپنی معیشت، علم اور صنعت کو اپنی قوم کے لیے وقف کرے۔

ہم اگر آج بھی جذباتیت اور وقتی نعرہ بازی میں کھوئے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی انہی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی جنہیں توڑنے کے لیے کبھی ہم نے خود قدم ہی نہیں اٹھایا۔

اللہ پاک مسلم ملت کو شعور دے آمین 

والسلام