دور عباسیہ کا وہ تاجدار مامون الرشید، جس نے شیرِ عدل کے انصاف اور حاتم کی سخاوت کو دنیا کے دل سے فراموش کر دیا تھا — سلطنتِ بغداد پر جلوہ افروز، شہزادہ عباس مامون الرشید کا بڑا لڑکا طائفۃ النمل کے قریب شکار میں مصروف تھا۔
غروب ہونے والے آفتاب کی شعاعیں آبِ دجلہ کے قدموں میں لوٹ رہی تھیں، طائرانِ خوشالحان کے نغموں میں وہ منہمک تھا جو کنارِ دریا پر وداعِ روزِ روشن کا مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ ایک حسین عورت پانی کا گھڑا بھر رہی تھی۔
عباس اس کو دیکھ کر آگے بڑھا اور پوچھا:
“تو کون ہے؟ اور کس خاندان سے تعلق رکھتی ہے؟ کیا ایسے غیرآباد مقامات پر بھی، جہاں پہاڑ اور جنگلوں کے سوا کچھ نہیں، حسن جنم لے سکتا ہے؟”
شہزادہ اپنا فقرہ ختم کر کے دیکھتا ہے تو غیور حسینہ کے چہرے پر بل آ چکے تھے۔ اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے شہزادے کا سوال حقارت سے ٹھکرا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باپ کی عظیم الشان حکومت کا جن عباس کے سر پر سوار تھا۔ اس نے حکم دیا:
“اس مغرور عورت کا حسب و نسب معلوم کرو، اور میری طرف سے نکاح کا پیغام دے دو۔”
نوکر چاکر اس عورت کے پیچھے روانہ ہوئے۔ شہزادہ نے اپنا شکار ملتوی کیا اور خیمے میں آ کر خاموش بیٹھ گیا۔ آدھی رات تک اسی الجھن میں گرفتار رہا — کبھی خیمے سے باہر آتا، کبھی اندر۔ اتنے میں ایک خادم نے آ کر عرض کیا:
“عورت خاندانِ برامکہ کی لڑکی مغیرہ بنت ازدار ہے۔ وہ دو بچوں کی ماں اور حسین بن موسیٰ کی بیوہ ہے۔ اس کے ورثا میں سے اب کوئی زندہ نہیں، صرف دو معصوم بچے ہیں۔ نکاح کا پیغام اس کے واسطے قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ آپے سے باہر ہو گئی اور یہ الفاظ کہے:
‘ہارون ہماری جانیں تباہ کر چکا، اب مامون ہماری عزت کے درپے ہے! لیکن عباس یاد رکھے کہ اس کی شہزادگی کو اس ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی کی دہلیز پر دونوں ہاتھوں سے مسل دوں گی!’”
رات کا پردہ دنیا کے چہرے سے اٹھا۔ ادھر صبحِ صادق آلِ برامکہ کی بربادی کا نوحہ کرتی ہوئی نمودار ہوئی۔ ادھر طائفۃ النمل کے مختصر سے مکان میں مغیرہ نے نمازِ فجر سے فراغت پا کر چھوٹے بچے کو کلیجے سے لگا کر پیار کیا، اور کچھ کہنا چاہتی تھی کہ شہزادہ عباس کا پیغام ایک قاصد کے ذریعے اس کے کان میں پہنچا:
“شہزادہ عباس کا غصہ تیری جان اور مال خاک میں ملا دے گا! یہ مکان ضبط کیا جاتا ہے، اور تجھے دو گھنٹے کی مہلت ہے — یہ مکان خالی کر دے!”
مغیرہ یہ پیغام سن کر دروازے پر آئی اور قاصد سے کہا:
“عباس اس وقت کو بھول گیا جب میرے دادا جعفر کا سر اس کے دادا ہارون کے سامنے رکھا گیا تھا، اور اس بےگناہ قتل نے آلِ برامکہ کو دو دو دانوں کا محتاج کر دیا۔ لیکن برمکی بیبیاں مظالمِ عباسیہ کو جس تحمل سے برداشت کرتی آئیں، تاریخ اس کو فراموش نہیں کر سکی!”
یہ کہہ کر مغیرہ نے ایک سفید چادر سر پر ڈالی اور دونوں بچوں کو ساتھ لے کر باہر نکل گئی۔
دوسری صدی ہجری کے اختتام کے قریب ہے۔ مامون الرشید کا دربار گرم ہے۔ مامون کے پہلو میں عباس تخت نشین ہے۔ امراء و وزراء خاموش بیٹھے ہیں کہ اچانک وہی مظلوم مغیرہ دربار میں حاضر ہوئی — وہی جس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کو شرما دیتا تھا، مگر اب بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو چکے تھے۔
وہ آگے بڑھی اور بولی:
“ایک بیوہ کا مکان، صرف اس لیے کہ وہ اپنی عصمت کی محافظ تھی، سلطنتِ عباسیہ کو مبارک ہو! لیکن مامون الرشید! ایک دن اس بادشاہ کو بھی منہ دکھانا ہے جس کی سلطنت کبھی فنا نہ ہوگی! ایک ظالم کی تیرے پاس فریاد لائی ہوں، انصاف کر اور داد دے!”
تمام درباری عورت کا منہ تکنے لگے، مگر کسی کی ہمت نہ تھی کہ بادشاہ کی موجودگی میں اس سے بات کر سکے۔
مامون الرشید نے عورت سے کہا:
“اس ظالم کا نام بتا، وہ کون ہے؟”
عورت ہنسی اور ہنس کر بولی:
“شہزادہ عباس — جو تختِ شاہی پر آپ کے برابر بیٹھا ہے!”
یہ سنتے ہی مامون کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے چوبدار کو حکم دیا کہ عباس کو اس عورت کے برابر کھڑا کر دے، تاکہ مدعی اور مدعا علیہ میں کوئی امتیاز نہ رہے۔
شہزادہ عباس خاموش تھا، اور ہر سوال کے جواب میں رک رک کر ایک آدھ بات کہہ دیتا تھا۔ مغیرہ دھڑلے سے اپنی داستانِ مصیبت بیان کر رہی تھی، اس کے چہرے سے عصمت و شرافت ٹپک رہی تھی — یہاں تک کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
“عباس! یہ صحیح ہے کہ تو مامون الرشید کا لڑکا اور سلطنت کا مالک ہے، لیکن یہ ہاتھ منتظر تھے اس وقت کے، کہ اگر تو اپنی دھن میں آگے بڑھ کر قریب پہنچتا، تو تیری گردن خاک میں ملا دیتے! آلِ برامکہ کی دولت عباسیوں نے پامال کر دی، مگر ہماری عصمت وہ دولت ہے کہ ہم عباسی سلطنت کو اس پر قربان کر دیں!”
وزرائے سلطنت مغیرہ کی جرات پر متعجب ہوئے اور بولے:
“یہ بی بی آدابِ شاہی کے خلاف بات کر رہی ہے، ادب سے گفتگو کرے!”
مامون نے کہا:
“اسے مت روکو! یہ حق رکھتی ہے کہ جو کچھ اس کے منہ میں آئے کہے۔ یہ صرف اس کی صداقت ہے جس نے اس کی زبان کو تیز اور اس کے حوصلے کو بلند کر دیا، اور عباس کی کمزوری ہے جس نے اسے گونگا بنا دیا!”
اسی وقت پانچ تھیلیاں اشرفیوں سے بھری ہوئی مامون الرشید نے اپنے ہاتھ سے اٹھائیں اور مغیرہ کے قدموں میں ڈال دیں، اور نہ صرف اس کا مکان واپس کیا بلکہ ایک جلیل القدر محل قصرِ عباس میں مغیرہ کو عطا فرمایا، اور درخواست کی کہ وہ شہزادے کا قصور معاف کر دے۔
والسلام

0 تبصرے