ایک عیسائی نے سوال کیا کہ سور کا گوشت کھانا حرام کیوں ہے جبکہ سور بھی تو اللّٰہ کی مخلوق ہے۔۔۔۔؟
*ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بزرگ اپنی گہری سوچ اور تفکر میں ڈوبے ہوئے تخیل کی دنیا میں جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایک منفرد سوال کا سامنا کیا: "اسلام میں سور کا گوشت کیوں حرام ہے؟"*
یہ سوال ان کے دل و دماغ میں اتر آیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا جواب خود سور سے پوچھا جائے۔
جب وہ تخیل کی اس دنیا میں سور کے سامنے پہنچے تو انہوں نے سوال کیا: "اے سور! بتاؤ، تمہارا گوشت اسلام میں کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟" سور نے بزرگ کی طرف دیکھا اور ایک گہری سانس لے کر جواب دینا شروع کیا۔
"میں ایک ایسا جانور ہوں جس کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں،" سور نے کہنا شروع کیا۔ "تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری عادات اور زندگی کے طریقے مجھے دوسروں سے منفرد بناتے ہیں۔ سب سے پہلے، میں اپنے کمزور اور بیمار بچوں کو کھاتا ہوں۔ یہ بات تمہارے لیے عجیب لگ سکتی ہے، لیکن یہ میری فطرت میں شامل ہے۔ میں وہ جانور ہوں جو لاشیں، کتے، چوہے، اور دیگر غلیظ چیزیں کھاتا ہوں۔ میرا وجود ایک طرح سے کچرا کھانے والا ہے، اور میں وہ سب کچھ کھا لیتا ہوں جو دوسرے جانور چھوڑ دیتے ہیں۔"
بزرگ حیرانی سے سنتے رہے اور سور نے اپنی بات جاری رکھی: "میرے پاس ایک کمزور نظامِ ہاضمہ ہے، جس کی وجہ سے میری جسمانی حالت اکثر خراب ہوتی ہے۔ خدا نے انسانوں کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ میرا گوشت نقصان دہ ہے، اور اسی لیے انہوں نے خبردار کیا ہے کہ نہ میرا گوشت کھاؤ اور نہ ہی میری لاش کو ہاتھ لگاؤ۔ میرا جسم بیماریوں اور کیڑوں کا گھر ہے، اور میرے گوشت میں چربی اور کیڑے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انہیں مارنا آسان نہیں ہوتا، حتیٰ کہ کھانا پکانے کے دوران بھی۔"
سور نے مزید بتایا کہ وہ زہریلے سانپ کھاتا ہے، اور یہ سانپ اسے کاٹتے بھی ہیں، لیکن ان کا زہر اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کا جسم اس زہر کو چربی کے خلیوں میں جذب کر لیتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس کا گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
"آج کل جدید فارموں میں، میں پنجروں میں بند ہوتا ہوں،" سور نے افسردہ لہجے میں کہا۔ "اس سے میں تناؤ کا شکار ہو جاتا ہوں اور بعض اوقات تو پاگل پن کی حالت تک پہنچ جاتا ہوں۔ میں اپنے پنجرے کی سلاخوں کو چبانے لگتا ہوں یہاں تک کہ میرا چہرہ خون آلود ہو جاتا ہے۔ یہ ماحول میری صحت کو مزید خراب کر دیتا ہے، اور میرے جسم میں بیماریوں کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔"
سور نے بزرگ کی طرف سنجیدگی سے دیکھا اور کہا: "مجھے امید ہے کہ آپ اب سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا گوشت کیوں حرام ہے۔ میرے گوشت میں نہ صرف زہریلے کیمیکلز ہوتے ہیں، بلکہ چربی اور کیڑے بھی اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انہیں مارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اگر آپ مجھے تجویز کردہ درجہ حرارت پر پکاتے بھی ہیں، تو بھی میرے گوشت کا غذائیت سے بھرپور حصہ باقی نہیں رہتا۔"
بزرگ نے غور سے سور کی باتیں سنیں اور اس کی زندگی کے حالات اور عادات پر غور کیا۔ سور نے آخر میں کہا: "یہ سچ ہے کہ انسان وہی ہوتا ہے جو وہ کھاتا ہے۔ خدا نے تمہیں خبردار کیا ہے کہ میرے گوشت سے دور رہو، کیونکہ میں انسان کے لیے نقصان دہ ہوں۔ میں کبھی تمہارا کھانا بننے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔"
یہ الفاظ سن کر بزرگ کے دل میں ایک نئی روشنی جاگی۔ انہیں سمجھ آیا کہ سور کا گوشت اسلام میں کیوں حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم صرف ایک مذہبی قانون نہیں، بلکہ ایک حفاظتی تدبیر ہے جو انسان کی صحت اور فلاح کے لیے دی گئی ہے۔ اس واقعے نے بزرگ کو یہ سکھایا کہ مذہبی احکام کے پیچھے ایک گہری حکمت ہوتی ہے جو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ہے۔
اس مکالمے کے بعد بزرگ نے تخیل کی دنیا کو چھوڑ دیا اور حقیقت کی دنیا میں واپس آ گئے۔ وہ دل میں اطمینان لیے لوٹے کہ وہ ایک اہم سبق سیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ خدا کے ہر حکم کے پیچھے ایک نہایت اہم وجہ اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، جسے سمجھنا انسان کے لیے ضروری ہے۔
یوں، اس واقعے نے نہ صرف بزرگ کو، بلکہ ہر اس شخص کو ایک پیغام دیا جو اس کہانی کو سنتا یا پڑھتا ہے: مذہب کے احکام پر عمل کرنا صرف روحانی فائدہ ہی نہیں دیتا، بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بھی اہم ہے۔
والسلام

0 تبصرے