بستی کے کنارے ایک پرانی حویلی میں الیاس صاحب رہتے تھے۔ وہ بہت امیر تھے۔ ان کے پاس وہ سب کچھ تھا جو پیسے سے خریدا جا سکتا تھا - بڑی گاڑی، قیمتی فرنیچر، نوکروں کا ایک ہجوم۔ مگر ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک عجیب بے چینی رہتی تھی۔
ہر شام وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے۔ سامنے ایک چھوٹا سا مکان تھا جہاں ایک غریب مزدور رحیمو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔
ایک دن الیاس صاحب کے دوست نے پوچھا، "تمہارے پاس تو سب کچھ ہے، پھر یہ اداسی کیوں؟"
الیاس نے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا، "دیکھو رحیمو کو۔ روز شام کو اس کے چھوٹے سے گھر میں روشنی ہوتی ہے۔ اس کے بچے اس کے گھیرے ہنسیں کھیلتے ہیں۔ اس کی بیوی اس کے لیے کھانا لے کر آتی ہے۔ میرے پاس تو یہ سب نہیں۔"
اسی وقت، رحیمو اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا۔ اس کی بیوی نے پوچھا، "کیا سوچ رہے ہو؟"
رحیمو نے آہ بھری، "دیکھو الیاس صاحب کی حویلی کو۔ ان کے پاس ہر آرام ہے۔ ہم نے تو پوری زندگی محنت کی، پھر بھی یہی ایک کمرہ اور چھت ہی نصیب ہوئی۔ کبھی سوچا ہے ایسی زندگی کے بارے میں؟"
ایک طوفانی رات، بجلی گر پڑی۔ پورے علاقے میں اندھیرا چھا گیا۔ الیاس صاحب کی حویلی میں جنریٹر نے کام کرنا بھی بند کر دیا۔ وہ بے چارا اکیلا پڑا تھا۔ اتنے بڑے مکان میں تاریکی اور خاموشی اس پر بھاری پڑ رہی تھی۔
اسی وقت، رحیمو کے گھر میں ایک چراغ جلا۔ اس کے بچے چراغ کے گرد بیٹھے کہانیاں سن رہے تھے۔ رحیمو نے ہارمونیم نکالا اور سب مل کر گانا گانے لگے۔ ان کی آوازیں بارش کی بوچھاڑ میں گھل رہی تھیں۔
الیاس صاحب نے یہ منظر دیکھا۔ ان کا دل چاہا کہ وہ بھی اس خوشی کا حصہ بنیں۔ وہ اپنے مکان سے نکلے اور رحیمو کے دروازے پر دستک دی۔
"کیا میں تھوڑی دیر کے لیے اندر آ سکتا ہوں؟" الیاس صاحب نے پوچھا۔
رحیمو حیران رہ گیا۔ امیر الیاس صاحب اس کے غریب گھر میں؟
اندر جاتے ہی الیاس صاحب کی نظر چھوٹے سے کمرے میں بچھے دریاں اور گھر کے بنے ہوئے کھانے پر پڑی۔ انہوں نے کہا، "تمہارے پاس جو ہے، وہ میں کروڑوں میں بھی نہیں خرید سکتا۔"
رحیمو مسکرایا، "الیاس صاحب، میں تو کل تک آپ کی زندگی کو دیکھ کر حسرت کرتا تھا۔"
اسی رات دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے دکھ سنائے۔ الیاس صاحب نے بتایا کہ کیسے ان کا خاندان پیسے کے لیے لڑتا ہے، کیسے وہ ہر عزیز سے شک میں رہتے ہیں۔ رحیمو نے اپنی پریشانیاں بتائی - بچوں کی فیس، ماہانہ گزارے کی فکر۔
صبح ہوتے ہوتے دونوں کو احساس ہوا کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ ہے، اور ہر ایک کچھ نہ کچھ کھو چکا ہے۔
الیاس صاحب نے کہا، "میں نے ساری زندگی دولت کے پیچھے بھاگا، مگر سکھ تمہارے اس چھوٹے سے گھر میں پایا۔"
رحیمو بولا، "اور میں نے ہمیشہ دولت کی خواہش کی، یہ بھول کر کہ میرا خاندان ہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔"
اسی دن سے الیاس صاحب نے رحیمو کے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانا شروع کیا، اور رحیمو نے اپنے خاندان کی خوشیوں میں الیاس صاحب کو شامل کرنا شروع کیا۔
سچ ہے، میں انسانی خواہشات کی تہہ تک گیا، میں نے دیکھا کہ جو بھی جس کے پاس ہے، اُسے اُس سے گِلہ ہے۔ ہر شخص دوسرے کے حالات کو بہتر سمجھتا ہے، یہاں تک کہ وہ خود اس کے اندر جھانکے اور دیکھے کہ اس کے اپنے خزانے کہاں چھپے ہیں۔
والسلام

0 تبصرے