ہائے میری سیاہ رات!
عربی حکایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص (بدو) نے اپنی چچازاد سے شادی کی اور اللہ نے اسے یکے بعد دیگرے نو بیٹے عطا کیے۔ قبیلے میں اس کی شان بلند ہو گئی، کیونکہ اس زمانے میں بیٹے طاقت، عزت اور فخر کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
مگر جب دسویں بار اس کی بیوی نے ایک بیٹی کو جنم دیا، تو گویا اس پر بجلی گر گئی۔ بجائے شکر کے، اس کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے آثار پھیل گئے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر چیخ اٹھا:
"یا لیلی الأسود! یا لیلی الأسود!"
(ہائے میری سیاہ رات، اے میرے بدنصیب دن!)
اس نے اپنی بے چاری بیوی سے منہ موڑ لیا اور اس ننھی کلی کو اپنی لیے منحوس سمجھ بیٹھا۔ اس کی نگاہ میں بیٹی جرم بن گئی اور اس کی ماں مجرم۔ بیٹی کے وجود کو گویا اپنے لیے عار سمجھا۔
وقت گزرتا گیا۔ مہ و سال کی گردش جاری رہی۔ بیٹے جوان ہوئے، شادیاں ہوئیں، ان کے نئے خیمے آباد ہوئے اور پھر ایک دن وہ باپ، جو کبھی قبیلے کا فخر سمجھا جاتا تھا، اندھا ہو گیا۔ آنکھوں کی روشنی جاتی رہی، طاقت کا غرور مٹ گیا اور وہ بوڑھا اپنے خیمے میں تنہا رہ گیا۔
نو بیٹے، جن پر اس نے ناز کیا تھا، اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے پلٹ کر نہ دیکھا، نہ اس کے دکھ کا مداوا کیا۔ وہ سب جو کبھی اس کی طاقت تھے، اس کی کمزوری بن گئے۔
مگر وہ بیٹی، وہی جسے اس نے "لیلی الأسود" (سیاہ رات) کہا تھا، جب یہ خبر سنی کہ اس کا باپ نابینا ہو گیا ہے، دل تھام کر دوڑ پڑی۔ اس نے نہ شکایت کی، نہ ماضی کو یاد کیا، بس خاموشی سے باپ کے خیمے میں داخل ہوئی۔
اس نے اس بوڑھے، کمزور جسم کو نہلایا، خیمہ صاف کیا، کھانا پکایا، پانی رکھا۔ اس کے ہاتھوں کی نرمی، اُس کی سانسوں کی خوشبو، اس کی خدمت کا خلوص، سب کچھ اس باپ کے دل میں ایک اجنبی سی راحت پیدا کر گیا۔
کھانا کھلانے کے بعد جب اس نے دوا دینے کے لیے باپ کا ہاتھ تھاما، تو اس نے اس کی کلائی کو تھام کر لرزتی آواز میں پوچھا:
"بتاؤ اے بیٹی، تُو کون ہے؟ تُو کون ہے، جس نے میرے اندھیرے میں یہ روشنی بھر دی ہے؟"
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
"میں ہوں، تمہاری لیلی الأسود، تمہاری سیاہ رات!"
یہ سننا تھا کہ اس بوڑھے کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے۔ وہ زار و قطار رو پڑا۔ اس کے دل پر ندامت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس نے بیٹی کے ہاتھ تھام کر کہا:
"بیٹی! مجھے معاف کر دو... کاش میری ساری راتیں سیاہ ہوتیں اور ان کی سیاہی تمہارے نور جیسی ہوتی!"
پھر اس نے اپنے دل کی آگ کو اِن اشعار میں ڈھالا، جو مشہور ہوگئے:
ليت الليالي كلها سود
دام الهناء بسود الليالي
لو الزمان بعمري يعود
لأحبها أول وتالي
ما غيرها يبرني ويعود
ينشد عن سواتي وحالي
تسعة رجالٍ كلهم جحود
تباعدوا عن سؤالي
ما غير ريح المسك والعود
إبنتي بكل يومٍ قبالي
ترجمہ:
کاش تمام راتیں سیاہ ہوتیں
اگر خوشی ان سیاہ راتوں میں ہی چھپی ہے
اگر وقت واپس آ جائے
تو میں اسے (بیٹی کو) سب سے پہلے اور سب سے آخر تک چاہوں
میرے زخموں کا مرہم کوئی نہیں
سوائے اُس کے جو میرا حال پوچھتی ہے
نو بیٹے، سب سرکش، سب بے وفا
کسی نے میری خیر نہ پوچھی
مگر ایک ہے جو ہر دن میرے سامنے آتی ہے
جس کی خوشبو کستوری اور عود کی طرح میرے خیمے کو مہکاتی ہے۔
یہ ہے اس بدوی باپ کی کہانی، جس نے بیٹی کی قدر دیر سے سمجھی، مگر جب سمجھی تو اپنی دنیا اور اندھی آنکھوں دونوں میں روشنی بھر لی۔
بیٹیاں عار نہیں ہوتیں، رحمت ہوتی ہیں۔ وہی دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں، وہی بوڑھوں کی تنہائیوں کو جنت بنا دیتی ہیں۔
اور اگر آپ نے یہ قصہ مکمل پڑھ لیا ہے تو درود بھیجیں اپنے نبی رحمت ﷺ پر جنہوں نے فرمایا تھا:
"من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين." (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2631)
(جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئیں، قیامت کے دن وہ میرے ساتھ یوں ہو گا اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیاں ملا دیں۔)
اللهم صل وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين۔ 🌹
(بحوالہ: روزنامہ عکاظ، سعودی عرب)
والسلام

0 تبصرے