
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔
اگر آپ ذہانت یا صلاحیتوں کے استعمال سےاچھا رزق کما رہے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ روزگار کے حصول کے لیے خاک چھان رہے ہیں۔
اگر آپ صحت مند اور توانا ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا احتیاطی تدابیر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ایسے بہت سے صحت مند جسموں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں ایسی مہلک بیماریوں نے آن گھیرا کہ وہ چند دنوں میں دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔
اگر آپ کے بیوی بچے آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں یا خاندان میں بیٹے بیٹیاں با اخلاق و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس میں بھی آپ کی اعلی تربیت نہیں، کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔
اگر دوران سفر کسی نے آپ کی جیب پر ہاتھ صاف نہیں کیے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ نے اپنی رحمت سے آپ کو سفر کی پریشانی سے بچا لیا اورجیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ راستے کی پریشانی اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔
الحمدللّٰہ !مجھے یہ تمام نعمتیں میسر ہیں سوائے اس کے کہ ایک بار حیدرآباد میں دوران سفر ایک پرانا Nokia کاموبائل جیب سے نکل گیا وہ بھی اس لیے کہ میرے ایک عزیز کا موبائل چوری ہونے پر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ لوگ کیسےغا فل ہو کر چلتے ہیں کہ کوئی ان کی جیب سے کوئی موبائل لے اڑے اورانہیں خبر تک نہ ہو۔ بس اگلے ہی دن میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگیا۔ اور جب میرے ساتھ یہ سب ہوا تو اندر سے صدا آئی: اے ڈیڑھ ہوشیار! جب تقدیر کا لکھا سامنے آ جائے تو کوئی تدبیر کام نہیں کرتی۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور منظم ہے اور اپنے کام نہایت مہارت سے انجام دیتا ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو کم ترسمجھتا ہے جن کو خدا کی خدائی سے نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ہے، ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ مگر جب اچانک وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ حقیقت اس کے گمان کے برعکس تھی ۔
دبئی میں ایک ایسے ہی خوش فہم انسان سے واسطہ پڑا ۔ جو پہلے مفلس حال تھے، پھر construction company کھول لی، اور لاکھوں میں کھیلنے لگے۔ ایک دن ملاقات کے لیے گیا تو ان سے ایک پرانے دوست کا حال احوال پو چھا، جو بیچارے مفلوک الحال رہا کرتے تھے۔ وہ کہنے لگے، وہ تو بڑے کم عقل ہیں، ساری زندگی یوں ہی صبرو شکر میں گزار دی۔ کچھ دماغ کا استعمال کرتے ،یہ کام کر لیتے وہ کام کر لیتے، وغیرہ وغیرہ۔
کوئی دس بارہ سال تک ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ پھر ایک دن کسی کام سے ان کے آفس جانا ہوا۔ خود نہیں تھے بلکہ پورا اسٹاف ہی غائب تھا۔ میں نےان کا نام لے کر پوچھا کہ کہاں گئے، پہلے تو یہ ان کا آفس تھا؟ مجھےبتایا گیاکہ ان کا تو انتقال ہو گیا ہے۔ پھر تفصیل معلوم ہوئی کہ کاروبار میں نقصان ہونے کی وجہ سے مقروض ہو گئے اور قرض کی بر وقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے جیل پنہچ گئے۔ چیک باؤنس کیس میں سزا ہوئی ، وہ یہ سب برداشت نہ کر سکے اور دوران جیل ہی انتقال کر گئے، بیوی بچے پاکستان میں تھے،اس مشکل وقت میں کوئی ان کے ساتھ نہ تھا۔
یہ خبر سنتے ہی میرے سامنے دس سال پہلے کا منظر گھوم گیا جہاں گول گھومتی کرسی پر بیٹھ کر مرحوم ایک سادہ اور درویش انسان کی سادگی کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بادشاہ کو فقیر بنتے دیر نہیں لگتی، سن رکھا تھا مگر آج اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سناتھا۔
اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور برکت ہو تو تین کام کرے:
اوّل: جو کچھ مل رہا ہے اسے صرف اور صرف اللہ کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت پر اترائے اور ساتھ ہی سجدہ شکر بھی بجا لاتا رہے۔
دوئم: جن کو کم رزق مل رہا ہے انہیں کم تر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو بے حساب رزق میسر ہے۔ یہ سب رزّاق( رزق دینے والے ) کی اپنی تقسیم ہے۔ اس کی حکمت وہی جانے۔
سوئم: بھر پور کوشش کریں اور حسب تو فیق اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کریں۔ سب سے زیادہ حق، والدین، نانا نانی، دادا دادی، بہنوں اور بھائی کا ہے اس کے بعد دیگر خونی رشتے ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، چچی وغیرہ۔ پھر قریبی رشتہ دار ۔ یقین رکھیں کہ جب آپ کسی کے لیے خوشی اور رزق کا وسیلہ بنیں گے تو بہت سے ہاتھ آپ کے حق میں دعا کے لیے اٹھیں گے تو پھر رب کریم کی رحمت کی بارش آپ کی زندگی کو گلشن بنا دے گی۔
والسلام
0 تبصرے