یہ بات بھی سچ ہے کہ محبت کے لحاظ سے ہر باپ یعقوب ہوتا ہے اور حسن کے لحاظ سے ہر بیٹا یوسف ہوتا ہے۔
مگر کبھی کبھار رشتوں کی بیڑیاں پاؤں میں ایسے پڑتی ہیں کہ عقل ماؤف ہو جاتی ہے دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دل مصلحت کے ہاتھوں اپنے ارمانوں کا قتل کرنے پہ آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنی آواز کو دبا لیتا ہے۔

آئیے ایسے ہی ایک دوست کی آپ بیتی آپ کو سناتے ہیں تاکہ ہم اس تحریر کو پڑھ کر سبق حاصل کریں اور اپنے بزرگوں کی زندگی میں ہی  قدر و منزلت کو پہچان لیں تاکہ عمر بھر پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے

میرے ابو کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ چلتے ہوئے اکثر دیوار کا سہارا لیتے۔ آہستہ آہستہ ان کی انگلیوں کے نشان دیواروں پر نمایاں ہونے لگے ایسے نشان جو ان کی کمزوری اور محتاجی کا پتہ دیتے تھے۔
میری بیوی ان نشانات سے الجھن محسوس کرتی تھی۔ وہ اکثر شکایت کرتی کہ دیواریں گندی ہو رہی ہیں۔
ایک دن ابو کے سر میں شدید درد تھا۔ انہوں نے تیل لگایا اور حسبِ عادت دیوار کا سہارا لیا، جس سے دیوار پر تیل کے دھبے پڑ گئے۔
اس بات پر بیوی نے ناراضی ظاہر کی، اور ابّا سے سخت لہجے میں کہا:
“دیوار کو ہاتھ نہ لگایا کریں!”
ابو خاموش ہو گئے۔ ان کی آنکھوں میں گہرا دکھ تھا۔ میری گزشتہ رات ہی بیوی سے تلخ کلامی ہوئی تھی اس لیئے میں مصلحتًا خاموش رہا۔ یعنی مجھے بیوی کی اس بدتمیزی پر شرمندگی تو ہوئی، مگر کچھ کہہ نہ سکا۔
اس دن کے بعد ابو نے دیوار کا سہارا لینا چھوڑ دیا۔ ایک دن وہ توازن کھو بیٹھے اور گر پڑے۔ ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ آپریشن ہوا، مگر وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے، اور کچھ ہی دنوں بعد وفات پا گئے۔۔

انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک میرے ابو جان کی مغفرت فرمائے آمین

میرے دل میں شدید پچھتاوا تھا۔ ابو کی خاموش نظریں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔ نہ انہیں بھلا سکا، نہ خود کو معاف کر پایا۔
کچھ عرصے بعد ہم نے گھر کو رنگ کروانے کا فیصلہ کیا۔ جب رنگ کرنے والے آئے تو میرا بیٹا، جو اپنے دادا سے بے حد محبت کرتا تھا، اُن دیواروں پر رنگ کروانے سے رک گیا جن پر دادا کی انگلیوں کے نشان تھے۔
رنگ کرنے والے سمجھدار لوگ تھے۔ انہوں نے ان نشانات کے گرد خوبصورت دائرے بنا دیے، جیسے دیوار پر کوئی خوبصورت فن پارہ ہو۔
آہستہ آہستہ وہ نشان ہمارے گھر کی پہچان بن گئے۔ جو بھی آتا، اس دیوار کی تعریف ضرور کرتا، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس سجاوٹ کے پیچھے ایک دلخراش سچائی چھپی ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ اب میں خود بھی بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے بھی دیوار کا سہارا لینا پڑا۔ اسی لمحے مجھے اپنا ماضی یاد آیا — میری بیوی کا ابو کو جھڑکنا، ان کی خاموشی، اور ان کا درد۔ میں نے سہارا لیے بغیر چلنے کی کوشش کی۔
میرا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ فوراً آگے بڑھا اور بولا:
“پاپا، دیوار کا سہارا لیجیے، ورنہ آپ گر جائیں گے!”
پھر میری پوتی دوڑتی ہوئی آئی اور بولی:
“دادُو، آپ میرا کندھا پکڑ لیں!”
یہ سن کر میری آنکھیں بھر آئیں۔
کاش، کاش میں نے بھی اپنے ابو کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہوتا — تو شاید وہ کچھ دن اور ہمارے ساتھ رہتے۔
میرے بیٹے اور پوتی نے مجھے سہارا دے کر صوفے پر بٹھایا۔ پھر پوتی اپنی ڈرائنگ بک لے آئی۔ اس نے مجھے دکھایا کہ اس کی ٹیچر نے ایک تصویر کی بہت تعریف کی تھی — وہ تصویر اسی دیوار کی تھی جس پر میرے ابو کی انگلیوں کے نشان تھے۔

تصویر کے نیچے ٹیچر نے  لکھا تھا:
“کتنا اچھا ہو کہ ہر بچہ اپنے بزرگوں سے ایسی ہی محبت کرے!”
میں اپنے کمرے میں گیا، اپنے مرحوم والد کی یاد میں سسکیاں لیتے ہوئے الـلــَّـه تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا۔

حاصل کلام
ہم میں سے ہر ایک نے ایک دن بوڑھا ہونا ہے۔ آج جو بزرگ ہمارے درمیان ہیں، وہ کل کی محنت، قربانی اور شفقت کی زندہ مثال ہیں۔ ان کی کمزور قدموں کو تمسخر نہیں، سہارا چاہیے۔ ان کی لرزتی آواز کو خاموشی نہیں، محبت بھرا جواب چاہیے۔

یاد رکھیے

جو محبت، عزت اور برداشت آپ آج اپنے بزرگوں کو دیں گے، کل کو وہی محبت، وہی عزت، آپ کے لیے آپ کی اولاد کے دلوں میں پیدا ہوگی۔

اگر آپ کے گھر میں کوئی بزرگ موجود ہے تو آج ہی ان کا ہاتھ تھام لیجیے — کل شاید دیر ہو جائے۔

جو اپ کے والدین ہیں وہ بیویوں کے والدین  تھوڑے ہوتے ہیں ان بیویوں کو اپ کے والدین سے کیا۔ نا ان کے دلوں میں وہ محبت ہوتی ہے  یاد رکھیے بیویاں اس وقت اپ کی والدین کی قدر کرنا چھوڑ دیتی ہیں جب اپ خود اپنے والدین کے قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس گھر میں اولاد اپنی بیویوں کے سامنے اپنے والدین کی بے قدری کرتے ہیں تو بیویاں بھی اپ کے والدین کی بے قدری کرتی ہیں۔

یاد رکھیے

 نہ تو ساس کبھی ماں ہوتی ہے نہ بہو کبھی بیٹی بنتی ہے۔

بیوی کے پیچھے لگ کر اپنے والدین کو مت ٹھکرائیں

ایک محاورہ ہے
دھی موئی جوائی چور

سسرال سے تب تک رشتہ ہے جب تک اپ کی بیوی زندہ ہے۔بیوی کے مرنے کے بعد وہ تو اپنے داماد کو چور تک بنا دیتے ہیں۔۔۔
حالات حاضرہ میں اس تعفن زدہ معاشرے کو اچھی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ یہ معاشرہ دوبارہ سے خوشگوار ہو سکے