تحریروترتیب: یوسف ارحــــم

بــــےمـــثال تحــاریــر کے قارئین

آج ہم اللہ رب العالمین کی عمدہ تخلیقات میں سے چند ایک کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے کیسے اس پاک ذات کی تخلیق اور وحدانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔؟

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سورج اس خلا میں ایک مقرر کردہ راستوں پر گزشتہ چار ارب 60 کروڑ سال سے 8 لاکھ 28 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ یعنی کہ 230 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے لگاتار گردش کر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا پورا نظام شمسی یعنی آٹھ سیارے جن میں مرکری، وینس، ارتھ، مارس، جوپیٹر، سیٹرن یورینس اور نیپچون شامل ہیں اور ان کے علاوہ ان میں سینکڑوں چاند اور چٹانوں کا کارواں اسی رفتار سے سفر میں مصروف ہے

مگر آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے محور سے ادھر ادھر نکل جائے سب اپنی راہ پر اپنے اپنے مدار کے اندر اپنی مقرر کردہ رفتار سے اپنے اپنے راستوں پر نہایت پابندی کے ساتھ چل رہے ہیں۔

اگر اب بھی کوئی احمق اللہ کے بنائے ہوئے اس حسین نظام کو کہے کہ یہ خود چل رہا ہے اس کو چلانے والا کوئی نہیں، یہ کائنات کنٹرول ہے ڈیزائن کی ہوئی ہے اور قانون بھی ہے لیکن قانون کو نافذ کرنے والی ذات موجود نہیں، یہ صرف ایک حادثے کی صورت میں وجود میں آئی ہے۔۔۔ تو بے مثال تحاریر کے دوستو آپ ایسے شخص کو احمق،جاہل، اور بے وقوف کے علاوہ کیا کہیں گے۔۔۔؟؟؟

ذرا غور کریں چاند تقریبآ تین لاکھ 84 ہزار چار سو دو کلومیٹر کے فاصلے سے زمین پر موجود سمندروں کے اربوں کھربوں ٹن پانیوں کو روزانہ دو دفعہ مدوجزر سے حرکت دیتا ہے تاکہ ان میں رہائش پذیر مخلوق ہوا کے ذریعے آکسیجن حاصل کر سکے اس عمل سے پانی بھی صاف ہوتا رہتا ہے، اس میں بدبو بھی پیدا نہیں ہوتی، ساحلی علاقوں کی صفائی بھی ہوتی رہتی ہے اور سمندر کے کناروں پر موجود گندگی بہہ کر گہرے پانیوں میں چلی جاتی ہے۔

دوستو بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں نمکین ہے گزشتہ تین ارب سال سے نمکیات کی مقدار نہ کچھ کم ہوئی اور نہ ہی زیادہ ہوئی بلکہ خودکو ایک توازن میں برقرار رکھے ہوئے ہے کیونکہ قدرت چاہتی ہے کہ پانی میں موجود چھوٹے بڑے آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد ان کے مردہ جسموں سے بدبو بھی نہ پھیلے۔

اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سمندر میں نمکین اور میٹھے پانی کی نہریں بھی ایک ساتھ بہتی رہتی ہیں زمین کی سطح کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو نمکین پانی کے سمندروں سے جڑے ہوئے ہیں میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان مختلف اور انوکھی آڑ موجود ہیں جو نمکین اور میٹھا پانی کو آپس میں نہیں ملنے دیتی۔

اللہ اکبر سبحان تیری قدرت

سوچنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں کہ اس حیران کن نظام کے پیچھے اللہ کے سوا کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟

اس کائنات کے توازن کو کون برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔۔؟

کیا پانیوں کی اپنی سوچ ہے یا چاند کوئی طاقت رکھتا ہے۔۔۔۔۔؟

جب جدید سائنس کا کوئی ہاتھ پاؤں نہ تھا۔۔۔۔ عرب و عجم میں کوئی تعلیمی نظام بھی نہیں تھا تب تقریباً آج سے ساڑھے 14 سو سال پہلے ایک عظیم و مکرم ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد قرآن مجید سے چاند اور سورج کے بارے میں اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی کہ

عربی:

وَالشَّمْسُ والقمر بِحُسْبَانٍ

(سورہ الرحمن:5)

ترجمہ:

سورج(Sun) اور چاند(Moon) ایک حساب(ترتیب) سے چل رہے ہیں

پھر سورہ الرحمن میں دوسری جگہ سمندروں کی گہرائی کے بارے میں آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی کہ

بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ(الرحمن)

ترجمہ: ان کے بیچ (درمیان) ایک آڑ (پردہ) ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔۔۔۔

جب چاند ستاروں کو آسمان پر لٹکا ہوا چراغ سمجھا اور کہا جاتا تھا اس وقت قرآن کریم نے حقیقت سب کے سامنے آشکارا کی کہ

كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

سب ایک گھیرے(مدار) میں تیر(گھوم)رہے ہیں..

اور جب سورج کو ساکن سمجھا جاتا تھا اس وقت قرآن مجید یہ حقیقت سامنے لے آئی کہ

(وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا)

ترجمہ: سورج اپنی مقررہ منزل(انتہا تک) چلتا رہے گا

اور ایک وقت تھا کہ جب کائنات کو جما ہوا (جامد) یا ٹھوس سمجھا جاتا تھا اور آسمان کو نیلی چھتری کہا جاتا تھا۔۔۔۔

قرآن کریم نے حقیقت کو یوں بیان فرمایا

وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ

ترجمہ: اور ہم (کائنات کو) وسعت دینے والے ہیں مطلب یہ کہ کائنات اپنے شروع سے ہی پھیلتی جا رہی ہے....

اور اللہ پاک قران مجید میں فرماتا ہے کہ

ترجمہ:اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے تخلیق کیا۔

اپنے قوانین کی دریافت کی وجہ سے آئن سٹائن کو جدید سائنس کا بانی کہا جاتا ہے لیکن قرآن کریم نے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ

ترجمہ: اور تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی(کمی بیشی)نقص نہیں پاؤ گے۔۔

روزانہ کی بنیاد پر رونما ہونے والے حالات و واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق اور مالک صرف اللہ ہے

نوزائیدہ (نومولود) بچے کا رو کر اپنی بھوک کا اظہار کرنا اور ماں کو اپنی طرف متوجہ کرنا....

اپنے بچوں کی خاطر ایک چھوٹی سی چڑیا کا شاہین یا عقاب جیسے پرندے کے ساتھ اعلان جنگ کرنا

مرغی کے بچے کا انڈے سے نکلنے کے فوراً بعد چل دوڑنا۔۔۔

حیوانات کے چھوٹے بچے دودھ کے لیے اپنی ماؤں کی طرف لپکتے ہیں۔۔۔

انسانی نو زائیدہ بچے کا رونا،چڑیا کا شاہین یا عقاب سے لڑ جانا، مرغی کے بچے کا انڈے سے نکلنے کے فورا بعد دوڑنا کس نے سکھایا۔۔۔؟

اور حیوانات کے بچوں کا اپنی ماؤں کی طرف رجحان کس کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتا ہے بے شک ایسی تخلیق اللہ رب العزت کی ذات ہی کر سکتی ہے۔۔۔۔

پرندوں کے دلوں میں محبت کون ڈالتا ہے کہ وہ اپنی چونچ میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتے ہیں۔۔۔؟

ایک شہد کی ننھی سی مکھی کو یہ عقل کس نے دی کہ خوش ذائقہ پھول سے رس چونسنا ہے اور زہریلے پھولوں کے قریب بھی نہیں جانا۔۔؟

شہد کی مکھیوں کو یہ انجینئرنگ کس نے سکھائی کہ شہد اور موم کو الگ الگ کیسے رکھنا ہے۔۔۔؟

شہد کی مکھیاں موم سے ایسا حیرت انگیز گھر بناتی ہیں کہ آج کے جدید سائنسدانوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے

چھوٹی سی مکھی کے اندر ایسا نظام نصب ہے کہ وہ کتنی بھی دور چلی جائے لیکن اپنے گھر کا راستہ کبھی نہیں بھولتی۔۔۔

شہد کی مکھیوں کو یہ کس نے بتایا کہ اپنے پروں کی حرکت سے گرمیوں کے موسم میں شہد کو پگھلنے سے بچایا جا سکتا ہے۔۔؟

اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے بتائیں ان کیڑے مکوڑوں کو یہ سلیقہ مندی کس نے سکھلائی۔۔۔؟

یہ زندگی گزارنے کے طریقے کس نے بتلائے۔۔۔۔؟ بے شک یہ میرے اللہ کی صلاحیت ہے۔۔

چیونٹیاں گرمیوں میں سردیوں کے لیے خوراک اکٹھا کرتی ہے اور بچوں کے لیے گھر بھی بناتے ہیں اور ایک ایسی تنظیم سے زندگی گزارتی ہیں جہاں منصوبہ بندی کے تمام اصول حیرت انگیز حد تک کار فرما ہوتے ہیں

دوستو غور کریں ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والی مچھلیاں اپنے انڈے اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور گرم پانی میں جا کر دیتی ہے تاکہ بہترین افزائش ہو سکے لیکن ان سے نکلنے والے بچے جوان ہو کر خود بخود ماں کے پاس پہنچ جاتے ہیں

اور نباتاتی جانداروں کی زندگی کا دورانیہ بھی بہت حیران کن ہے جیسے جراثیم اور بیکٹیریا کیسے کروڑوں سالوں سے اپنے وجود اور اس کی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہیں زندگی گزارنے کے یہ طریقے کس نے سکھائے ۔۔؟

اس سماجی نظام کے یہ اصول انہیں کس نے بتلائے۔۔۔؟

کیا یہ زمین اس قدر عقل مند ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے دن رات کا نظام قائم کر لیا اور اپنی مرضی سے اپنے مدار پر 1/2-67 ڈگری جھک گئی تاکہ سال بھر گرمی کے بعد سردی اور خزاں کے بعد بہار جیسے مختلف موسم آتے جاتے رہیں۔۔۔۔؟

زمین کا ایک خاص ڈگری پر جھک جانا زمین کی مرضی نہیں بلکہ اللہ کی شان ہے تاکہ اس پر بسنے والوں کے لیے موسم کی تبدیلی سے سبزیاں پھل اور خوش ذائقہ اناج مہیا کرسکے۔۔۔

کیا زمین نے اپنے اندر شمالاً جنوباً مقناطیسی نظام خود بنا لیا۔۔؟

دراصل یہ مقناطیسی نظام اللہ پاک کی تخلیق ہے جس سے بادلوں میں بجلیاں کڑکتی ہیں اور ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائیڈ میں بدل کر بارش کے ذریعے زمینی پودوں کو قدرتی کھاد مہیا کی جاتی ہے

اسی مقناطیسی نظام کے ذریعے سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز، اب دوز اور ہواؤں میں اڑنے والے طیارے اپنا راستہ معلوم کرتے ہیں آسمان کی طرف سے انے والی خطرناک شعائیں مقناطیسی نظام سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں تاکہ زمینی مخلوق ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں اور زندگی جاری رہے۔۔

میدانوں پہاڑوں ہواؤں سورج اور زمین نے سمندر سے سمجھوتہ کر رکھا ہے سورج گرمی سے بخارات اٹھاتا ہے جس سے نمک واپس سمندر میں چلا جاتا ہے، ہوائیں اربوں ٹن کشید شدہ صاف اور میٹھے پانی کو اپنی دوش پر اٹھا کر میدانوں اور پہاڑوں تک پہنچاتی ہے اور سردیوں کے موسم میں پہاڑ اس پانی کو برف کی صورت میں سٹور کر لیتے ہیں اور گرمیوں میں یہی برف پگھلتی ہے جس سے آبشاریں اور جھرنے پھوٹتے ہیں پھر ان کا پانی ندیوں میں بہتا ہے تاکہ دور دور تک انسانوں جانوروں، پرندوں کی پیاس بجھائی جا سکے اور پھلوں باغوں سبزیوں اور چراگاہوں اور اناج کو سیراب کیا جا سکے

ستاروں سے آنے والی ریڈیائی ذرات بادلوں کے پانی کو اکٹھا کر کرتے ہیں پھر قطروں کی شکل دیتے ہیں پھر یہ میٹھا پانی پہاڑی علاقوں اور خشک میدانوں کو سیراب کرتا ہے

چونکہ سرد موسم میں پانی کی ضرورت کم ہوتی ہے اس لیے پہاڑوں پر برف کی صورت میں یہ پانی جمع ہو جاتا ہے گرمیوں میں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے میدانوں کو سیراب کرتا ہوا واپس سمندر تک پہنچ جاتا ہے

اتنا شاندار، متوازن اور بے مثال نظام جو سب کو سیراب بھی کردیتا ہے اور کچھ ضائع بھی نہیں ہوتا کون ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے غور کریں کیا یہ بھی ستاروں، ہواؤں اور زمین کی اپنی سوچ ہے بالکل ایسا نہیں ہے یہ میرے اللہ کی تخلیق ہے جو بڑا ہی حکمت والا ہے۔۔۔

چلو دوستو اب چلتے ہیں انسانی سسٹم کی طرف۔۔۔

جو ہمارے خون میں شوگر کی خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتا اس اعضاء کو پنکریاز یا لبلبہ کہتے ہیں

ہمارا دل تقریباً ایک منٹ میں 70 سے 80 مرتبہ منظم اور باقاعدہ طور پر دھڑکتا ہے جو خون کو جسم میں پمپ کرنے کا باعث بنتا ہے

اور ہمارا دل 70 سے 80 سال بنا مرمت (Repairing) کے تقریباً تین ارب مرتبہ دھڑکتا ہے

انسانی دو عدد گردے صفائی کی بہترین فیکٹریاں ہیں جن کو بخوبی علم ہے کہ مفید مادے خون میں شامل کرنے ہیں اور فضلات کا جسم سے اخراج کرنا ہے۔ ان زہریلے فضلات کا اخراج کروڑوں روپے کی مالیت سے ڈایالائیسز کے ذریعے کیاجاتا ہے مگر اللہ کی قدرت سے ہمیں یہ سہولت مفت میں میسر ہے

اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔۔۔؟

ہمارا معدہ بحکم الٰہی ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزاء جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹس وغیرہ کو علیحدہ کر کے خون میں شامل کرتا ہے اور زہریلے اجزاء کو باہر نکال دیتا ہے

دوستو ہمارا جسم اللہ کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے غور کریں چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں کیا یہ سب خود بخود وجود میں آگیا تھا۔۔۔۔۔؟

بے شک اس میں میرے اللہ کی حکمت ہے

مضبوط ہڈیوں کے خول میں محفوظ دماغ کو کس نے تخلیق کیا جو پانی میں تیرتا ہوا عقل کا خزانہ ہے، معلومات کا ذخیرہ ہے۔ دماغ احکاماتِ خداوندی اور انسانی ارادوں کا مرکز ہے۔ دماغ انسان اور ماحول کے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمارا دماغ ایک ایسا کمپیوٹر ہے جس کی کارگردگی، مخفی توانائی تو دور انسان اس کی مکمل بناوٹ اور ڈیزائن کو ابھی تک صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پایا۔

انسانی جسم اربوں کھربوں خلیات (Cells) کا گٹھ جوڑ ہے(مجموعہ) ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سیلز اتنے چھوٹے ہیں کہ مائیکروسکوپ کی مدد کے بغیر نظر بھی نہیں آتے۔۔مگر یہ چھوٹا سا خلیہ شعور کا پیکر ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ اسے کیا کام سر انجام دینا ہے۔

ہمارے جینز کے اندر پوری ہدایات لکھی ہوئی ہے اور ہماری زندگی ان ہدایات کے مطابق خود بخود چلتی رہتی ہے انسانی زندگی کا پورا ریکارڈ انسانی شخصیت، انسانی عقل و شعور الغرض سب کچھ ان خلیات پر لکھا جا چکا ہے

اب چاہے نباتات ہوں یا حیوانات ان کے بیج کے اندر پوری نقشہ بندی کردی گئی ہے۔۔۔۔ بتاؤ اللہ کے علاوہ یہ پروگرامنگ کوئی کرسکتا ہے۔۔؟

عام آنکھ سے نظر نہ آنے والا خلیہ ایک توانا،مضبوط اور عقل و شعور والا انسان بن جاتا ہے بتاؤ یہ کس کی تخلیق ہے۔۔۔؟

کوئی اہل علم بتائے کہ ہمارے لب ہماری زبان اور جسم کے اجزاء کو مختلف انداز میں حرکت دینا کس نے سکھایا۔۔۔؟ان حرکات کے اندر یہ صلاحیت رکھی گئی کہ ان سے بامعنی آوازیں نکلتیں ہے جس سے مختلف جگہوں پر بسنے والے انسان، جانور،چرند پرند اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔

جب میں نے اپنے دل سے پوچھا ان حیران کن نشانیوں اور حقیقتوں کے پیچھے کس کی عظیم قدرت شامل ہے۔۔؟

دل برملا کہہ اٹھا

وہ ہے لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ

بےمثال_تحاریر

والسلام